محبت غزل
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگت پہ گرے اور زخمی مجھے آئے
میں اپنے پیر تلے روندتا ہوں کو
بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے مجھے
بہ رنگ عود ملے گی اسے میری خوشبو
وہ جب بھی بڑے شوق سے جلائے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہنے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے
سب سے زیادہ نکلتا ہے میرا
جو آپ کے ہمیشہ گلے کو جاری کرتا ہے۔
میں اپنے دل سے خیال کس کا
جو نہیں تو کوئی اور یاد آئے
زمانہ درد کے صحرا تک آج تک لے آیا
گزارہ کر کے زلفوں کے سائے مجھے
وہ میرا دوست ہے جہاں کو معلوم ہے۔
دغا کرے وہ کسی سے شرم آئے
وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلم ہو رہا ہوں قتیلؔ
غم حیات سے دونوں خریدیں مجھے
دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا۔
اس گھر کا فرد کوئی خاص نہیں تھا۔
آپ جنت میں جا بسے
ہماری گاؤں ویران تو نہ تھی۔
بنوں میں جب لے لیا اسے نادان ضرور تھا۔
جب چھوڑ کر چلا گیا مجھے نادان تو نہیں تھا۔
کٹ تو کیا گیا ہے یہ نہیں پوچِھیے
یارو! سفر حیات کا آسان نہ تھا۔
چوکھٹ پہیلی اسکی سر کو جھکاتا کس کے لیے
وہ اک امیرِ شہر تھا، بھگوان تو نہ تھا۔
نیلام گھر نہیں بنایا اپنی ذات کو
اس قدر میرا ایمان تو نہ تھا۔
رسماً ہی بتاتا فاروقؔ حالِ دل
کچھ اس کی ذات کا نقصان تو نہیں تھا۔
مجھے اداس کر گئے خوش رہو
مرے مزاج پر گئے ہو خوش رہو
مرے کے لیے نہیں رک سکتا
جہاں تک گئے ہو خوش رہو
خوشی ہوئی آج تم کو دیکھ کر
بہت نکھر سنور گئے خوش رہو
اداس ہو کسی کی بے وفائی پر
وفا تو کر گئے ہو خوش رہو
گلی میں اور لوگ بھی آشنا تھے۔
ہمیں سلام کر گئے ہو خوش رہو
تم میری دوست پہ ناز تھی۔
اسی سے اب مکر گئے خوش رہو
کسی کی زندگی بنو کہ بندگی
مرے تو مر گئے خوش رہو
کبھی رُک گئے، کبھی چل۔
کبھی چلتے بھٹک گئے-
یونی عمر ساری گزار دی-
یونہی زندگی کے تم سہے-
-
کبھی نیند میں-
کبھی ہوش میں-
تو جہاں ملا تجھے دیکھ کر-
نہ نظر ملی-
نہ زباں ہلی-
یونہی سر جھکا کر گزر گئے-
-
کبھی ذلف پر-
کبھی چشم پر-
کبھی تیرے حسیں وجود پر-
جو پسند تھے میری کتاب میں-
وہ شعر سب بکھر گئے-
-
مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے-
لیکن آج ہم الگ ہیں-
وہ الگ ہوئے تو سنور گئے-
ہم الگ ہوئے تو بکھر گئے-
-
کبھی عرش پر-
کبھی فرش پر-
کبھی ان کے در-
تو کبھی دربدر-
غم عشق! تیرا شکریہ-
ہم کہاں سے گزر گئے-
کبھی مہر و ماہ و نجوم سے، کبھی کہکشاں سے گُزر۔!!
میں تیری تلاش میں آخرش حدِ لامکاں سے گُزر۔!!
یہ تفوت صنم و حرم ہے کہ جب نشہ بھی ہو،
جو بھی غرق بادۂ حق ہُوا، غمِ این و آں سے گُزر!!
کبھی شہرِ حُسنِ خیال سے، کبھی دشتِ حزن و ملال سے،
تیرے پیار میں تیرے پیارے میں آپ سے گُزر!!
تیرے راہ گُزر میری راہ گُزر، تیرے نقشِ پا میری راہ پر،
تُو جہاں سے گُزر گیا، وہاں سے گُزر۔!!
راہِ زندگی میں مُقام وہ مُجھے بارہا مِلے دوستو،
کہ خرد کا پھسل گیا، جنوں سے گُزر۔
کبھی عرش پر، کبھی فرش پر، کبھی اُس کے در، کبھی دربدر،
غم عاشقی تیرا شکریہ میں یہاں سے گُزر گیا۔
میرا جسم کیا میری روح کیا؟ کوئی زخمی نہیں،
اے امیرؔ تیرِ خدمتِ حُسن یہ آپ سے گُزر۔
No comments:
Post a Comment